Friday 20 November 2015

جو لوگ ایک غم اپنا سنانے آتے ہیں

جو لوگ ایک غم اپنا سنانے آتے ہیں
وہ چار غم تِری محفل سے لے کے جاتے ہیں
ہر آدمی سے محبت کی سرگزشت نہ پوچھ
سنائے جانے کے قصے سنائے جاتے ہیں
بَری ہیں پُرسشِ اعمال سے جو دیوانے
تِری نہیں میں نہیں، ہاں میں ہاں ملاتے ہیں
مجھے وہ عیش میں بھُولے تو کیا مجال مِری
خوشی میں لوگ خدا کو بھی بھُول جاتے ہیں
نہیں نصیب ملاقاتِ ظاہری کے مزے
خیال میں تو وہ ہر وقت آتے جاتے ہیں
کبھی ندیم، کبھی چارہ گر، کبھی معشوق
وہ روز ایک نیا روپ لے کے آتے ہیں
صفیؔ ہماری جگہ کیا ہو ان کی محفل میں
ہزار آتے ہیں ایسے، ہزار جاتے ہیں

صفی اورنگ آبادی

No comments:

Post a Comment