خاموش تِرے کوچے میں جایا نہیں جاتا
او بھُولنے والے! تُو بھُلایا نہیں جاتا
بدلے غمِ فُرقت کے مجھے مار ہی ڈالو
دو زہر، کہ یہ زہر تو کھایا نہیں جاتا
مجھ سے انہیں سب کچھ ہو محبت تو نہیں ہے
ہم ہیں، کہ کبھی آنکھ مِلائی نہیں جاتی
وہ ہیں، کہ کبھی ہاتھ مِلایا نہیں جاتا
کس طرح دکھاؤں، میں جسے دیکھ رہا ہوں
جو دیکھ رہا ہوں، وہ دکھایا نہیں جاتا
رُوٹھے ہوئے معشوق تو ہیں مان بھی جاتے
مچلا ہوا دل ہے، یہ منایا نہیں جاتا
ہر ایک سے بدظن نہ ہو اے قاتلِ عالم
ہر ایک کو معشوق بنایا نہیں جاتا
کٹتی ہے اپاہج کے طرح آپ کی دُھن میں
اٹھا نہیں جاتا، کہیں جایا نہیں جاتا
جس طرح ستایا ہے صفیؔ دوست نے مجھ کو
دشمن کو بھی اس طرح ستایا نہیں جاتا
صفی اورنگ آبادی
No comments:
Post a Comment