چل دیا وہ رشکِ مہ، گھر اپنا سونا ہو گیا
”چار دن کی چاندنی تھی پھر اندھیرا ہو گیا“
پوچھتے کیا ہو کہ تیرا حال یہ کیا ہو گیا
تم نہ جانو تو خدا جانے مجھے کیا ہو گیا
عاشقی میں وہم بڑھتے بڑھتے سودا ہو گیا
ان کا دامن کیا پھٹا، اک حشر برپا ہو گیا
اپنا قصہ ”قصۂ یوسف زلیخا“ ہو گیا
قابل حیرت نہ ٹھہری زندگی تیرے بغیر
میرا مرنا یار لوگوں کو اچنبھا ہو گیا
جس کو پہلے پہلے دلآزار ہم سمجھا کیے
رفتہ رفتہ اب وہی دل کی تمنا ہو گیا
ان کو دیکھو، وہ نظر آیا کیے ہر رنگ میں
مجھ کو دیکھو، دیدہ و دانستہ اندھا ہو گیا
میری آنکھیں تو لگی تھیں شوخئ رفتار پر
اور وہ چلتے ہوئے دل لے کے چلتا ہو گیا
وہ سراپا ناز ہے مجھ سے برا تو کیا کروں
”چار نے اچھا کہا، جس کو وہ اچھا ہو گیا“
اپنے دل کا خون کر ڈالوں تو شاید چین ہو
یہ تو جس کا ہو گیا، کم بخت اس کا ہو گیا
تاب نظارہ رہے ہر ایک کو ،ممکن نہیں
ان کا بے پردا نکل آنا ہی پردا ہو گیا
لے کے دل الزام دیتے ہو، غنیمت ہے یہی
”مال کا مول آ گیا، ادلے کو بدلا ہو گیا“
دل کی گبھراہٹ نسیم صبحدم سے کم ہوئی
“تم نہ آئے، ”غیب سے سامان پیدا ہو گیا
چاہنے والوں کو دیوانہ بنایا آپ نے
“اور ”بن پیسے کا لوگوں کو تماشا ہو گیا
عاشقی میں نام اگر درکار ہے، بدنام ہو
دیکھ! سب کچھ ہو گیا، جب قیس رسوا ہو گیا
کچھ نہ کچھ میں بھی تو سن لوں اپنے دل کی واردات
یا کسی کو دے دیا، گم ہو گیا، کیا ہو گیا
عاشقی میں نیک و بد پر آنکھ پڑتی ہی نہیں
اس بلا نے آ لیا جس کو، وہ اندھا ہو گیا
کیا یہی ہے شرم، تیرے بھولے پن کے میں نثار
منہ پہ دونوں ہاتھ رکھ لینے سے پردا ہو گیا
میری ہر اک بات قانونِ محبت ہے، مگر
اے صفیؔ! میں شاعری کرنے سے جھوٹا ہو گیا
صفی اورنگ آبادی
No comments:
Post a Comment