Friday 20 November 2015

بھوک پہنوں میں بھوک اوڑھوں میں بھوک دیکھوں میں پیاس لکھوں

بھوک پہنوں میں بھوک اوڑھوں، میں بھوک دیکھوں، میں پیاس لکھوں
برہنہ جسموں کے واسطے میں خیال کاتوں، کپاس لکھوں
سسک سسک کر جو مر رہے ہیں، میں ان میں شامل ہوں اور پھر بھی
کسی کے دل میں امید بوؤں، کسی کی آنکھوں میں آس لکھوں
لہو کے قطرے بدن کے طائر، ہر ایک خواہش ہے شاخ میری
کسی زباں میں مہک اگاؤں، کسی کے لب پر مٹھاس لکھوں
تھمے جو بارش تو لوگ دیکھیں، چھتوں پہ چڑھ کے دھنک کا منظر
میں اپنے دل کو اجاڑ پاؤں،۔ تمام عالم اداس لکھوں
مِرا سفر ہے سمندر ایسا، جدھر بھی جاؤں، بپھر کے جاؤں
کہیں اچھالوں میں موجِ وحشت، کہیں میں خوف و ہراس لکھوں

اقبال ساجد

No comments:

Post a Comment