Friday 20 November 2015

غار سے سنگ ہٹایا تو وہ خالی نکلا

غار سے سنگ ہٹایا تو وہ خالی نکلا
کسی قیدی کا نہ کردار مثالی نکلا
چڑھتے سورج نے ہر اک ہاتھ میں کشکول دیا
صبح ہوتے ہی ہر اک گھر سے سوالی نکلا
سب کی شکلوں میں تِری شکل نظر آئی مجھے
قرعۂ فال مِرے نام پہ گالی نکلا
راس آئے مجھے مرجھائے ہوئے زرد گلاب
غم کا پرتَوٗ مِرے چہرے کی بحالی نکلا
کٹ گیا جسم مگر سائے تو محفوظ رہے
میرا شیرازہ بکھر کر بھی مثالی نکلا
رات جب گزری تو پھر صبح حنا رنگ ہوئی
آسماں جاگی ہوئی آنکھ کی لالی نکلا
رات مجھ سے بھی تو ہر گھر کے دروبام سجے
چاند کی طرح مِرا عکس خیالی نکلا
تخت خالی ہی رہا غم کا ہمیشہ ساجدؔ
اس ریاست کا تو کوئی بھی نہ والی نکلا

اقبال ساجد

No comments:

Post a Comment