غار سے سنگ ہٹایا تو وہ خالی نکلا
کسی قیدی کا نہ کردار مثالی نکلا
چڑھتے سورج نے ہر اک ہاتھ میں کشکول دیا
صبح ہوتے ہی ہر اک گھر سے سوالی نکلا
سب کی شکلوں میں تِری شکل نظر آئی مجھے
راس آئے مجھے مرجھائے ہوئے زرد گلاب
غم کا پرتَوٗ مِرے چہرے کی بحالی نکلا
کٹ گیا جسم مگر سائے تو محفوظ رہے
میرا شیرازہ بکھر کر بھی مثالی نکلا
رات جب گزری تو پھر صبح حنا رنگ ہوئی
آسماں جاگی ہوئی آنکھ کی لالی نکلا
رات مجھ سے بھی تو ہر گھر کے دروبام سجے
چاند کی طرح مِرا عکس خیالی نکلا
تخت خالی ہی رہا غم کا ہمیشہ ساجدؔ
اس ریاست کا تو کوئی بھی نہ والی نکلا
اقبال ساجد
No comments:
Post a Comment