Thursday 19 November 2015

ریت کی طرح کناروں پہ ہیں ڈرنے والے

ریت کی طرح کناروں پہ ہیں ڈرنے والے
موج در موج گئے پار اترنے والے
آج کانٹوں سے گریبان چھڑائیں تو سہی
لالہ و گل پہ کبھی پاؤں نہ دھرنے والے
روپ سے، چھب سے، پھبن سے کوئی آگاہ نہیں
نقش کارِ لب و عارج ہیں سنورنے والے
کوئی جینے کا سلیقہ ہو تو میں بھی جانوں
موت آسان ہے، مر جاتے ہیں مرنے والے
میرے جینے کا یہ اسلوب پتہ دیتا ہے
کہ ابھی عشق میں کچھ کام ہیں کرنے والے

عابد علی عابد

No comments:

Post a Comment