دن ڈھلا، شام ہوئی، پھول کہِیں لہرائے
سانپ یادوں کے مہکتے ہوئے ڈسنے آئے
وہ کڑی دھوپ کے دن، وہ تپشِ راہِ وفا
وہ سوادِ شبِ گیسُو کے گھنیرے سائے
دولتِ طبعِ سخن گو ہے امانت اس کی
جستجوئےغمِ دوراں کو، خِرد نکلی تھی
کہ جنوں نےغمِ جاناں کے خزینے پائے
سب مجھے مشورۂ ترکِ وفا دیتے ہیں
ان کا ایماء بھی ہو شامل تو مزا آ جائے
کیا کہوں دل نے کہاں سینت کے رکھا ہے اسے
نہ کبھی بھولنے پاؤں، نہ مجھے یاد آئے
میں نے حافظؔ کی طرح، طے یہ کِیا ہے عابدؔ
”بعد ازِیں، مے نہ خورم بے کفِ بزم آرائے“
عابد علی عابد
No comments:
Post a Comment