Thursday 19 November 2015

چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھرتے ہیں

چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھِرتے ہیں 
وہ تو بے چارے خود ہیں بھکاری ڈیرے ڈیرے پھِرتے ہیں 
جن گلیوں میں ہم نے سُکھ کی سیج پہ راتیں کاٹی تھیں 
اُن گلیوں میں بیاکل ہو کر سانجھ سویرے پھِرتے ہیں 
رُوپ سرُوپ کی جوت جگانا اس نگری میں جوکھم ہے 
چاروں کھونٹ بگولے بن کر گھور اندھیرے پھِرتے ہیں 
کوئی ہمیں بھی یہ سمجھا دو، ان پر دل کیوں رِیجھ گیا 
تِیکھی چِتون، بانکی چھب والے بہتیرے پھِرتے ہیں 
اک دن اس نے نین ملا کر، شرما کے مُکھ موڑا تھا
تب سے سُندر سپنے من کو گھیرے پھِرتے ہیں
اس نگری میں باغ و بن کی یارو لِیلا نیاری ہے 
پنچھی اپنے سر پہ اٹھا کر اپنے بسیرے پھِرتے ہیں 
لوگ تو دامن سی لیتے ہیں، جیسے ہو جی لیتے ہیں
عابدؔ ہم دیوانے ہیں، جو بال بکھیرے پھِرتے ہیں 

عابد علی عابد 

No comments:

Post a Comment