چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھِرتے ہیں
وہ تو بے چارے خود ہیں بھکاری ڈیرے ڈیرے پھِرتے ہیں
جن گلیوں میں ہم نے سُکھ کی سیج پہ راتیں کاٹی تھیں
اُن گلیوں میں بیاکل ہو کر سانجھ سویرے پھِرتے ہیں
رُوپ سرُوپ کی جوت جگانا اس نگری میں جوکھم ہے
کوئی ہمیں بھی یہ سمجھا دو، ان پر دل کیوں رِیجھ گیا
تِیکھی چِتون، بانکی چھب والے بہتیرے پھِرتے ہیں
اک دن اس نے نین ملا کر، شرما کے مُکھ موڑا تھا
تب سے سُندر سپنے من کو گھیرے پھِرتے ہیں
اس نگری میں باغ و بن کی یارو لِیلا نیاری ہے
پنچھی اپنے سر پہ اٹھا کر اپنے بسیرے پھِرتے ہیں
لوگ تو دامن سی لیتے ہیں، جیسے ہو جی لیتے ہیں
عابدؔ ہم دیوانے ہیں، جو بال بکھیرے پھِرتے ہیں
عابد علی عابد
No comments:
Post a Comment