Thursday 19 November 2015

چلے چلو جہاں لے جائے ولولہ دل کا

چلے چلو جہاں لے جائے ولولہ دل کا
دلیلِ راہِ محبت ہے فیصلہ دل کا
ہوائے کوچۂ قاتل سے بس نہیں چلتا
کشاں کشاں لیے جاتا ہے ولولہ دل کا
گِلہ کسے ہے کہ قاتل نے نِیم جاں چھوڑا
تڑپ تڑپ کے نکالوں گا حوصلہ دل کا
خدا بچائے کہ نازک ہے ان میں ایک سے ایک
تنک مزاجوں سے ٹھہرا معاملہ دل کا
دِکھا رہا ہے یہ دونوں جہاں کی کیفیت
کرے گا ساغرِ جَم کیا مقابلہ دل کا
ہوا سے وادئ وحشت میں باتیں کرتے ہو
بھلا یہاں کوئی سنتا بھی ہے گِلہ دل کا
قیامت آئی، کھُلا رازِ عشق کا دفتر
بڑا غضب ہوا، پھُوٹا ہے آبلہ دل کا
کسی کے ہو رہو، اچھی نہیں یہ آزادی
کسی کی زلف سے لازم ہے سلسلہ دل کا
پیالہ خالی اٹھا کر لگا لیا منہ سے
کہ یاسؔ کچھ تو نکل جائے حوصلہ دل کا

یاس یگانہ 

No comments:

Post a Comment