Thursday 19 November 2015

مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا

مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا
برا ہو پائے سرکش کا کہ تھک جانا نہیں آتا
کبھی گمراہ ہو کر، راہ پر آنا نہیں آتا
ازل سے تیرا بندہ ہوں، تِرا ہر حکم آنکھوں کا
مگر، فرمانِ آزادی بجا لانا نہیں آتا
مجھے اے ناخدا! آخر کسی کو منہ دکھانا ہے
بہانہ کر کے تنہا پار اتر جانا نہیں آتا
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا
دلِ بے حوصلہ ہے اک ذرا سی ٹھیس کا مہماں
وہ آنسو کیا پئے گا، جس کو غم کھانا نہیں آتا
اسیرو! شوقِ آزادی مجھے بھی گدگداتا ہے
مگر چادر سے باہر پاؤں پھیلانا نہیں آتا
سراپا راز ہوں، میں کیا بتاؤں کون ہوں، کیا ہوں
سمجھتا ہوں، مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا

یاس یگانہ

No comments:

Post a Comment