مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا
برا ہو پائے سرکش کا کہ تھک جانا نہیں آتا
کبھی گمراہ ہو کر، راہ پر آنا نہیں آتا
ازل سے تیرا بندہ ہوں، تِرا ہر حکم آنکھوں کا
مجھے اے ناخدا! آخر کسی کو منہ دکھانا ہے
بہانہ کر کے تنہا پار اتر جانا نہیں آتا
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا
دلِ بے حوصلہ ہے اک ذرا سی ٹھیس کا مہماں
وہ آنسو کیا پئے گا، جس کو غم کھانا نہیں آتا
اسیرو! شوقِ آزادی مجھے بھی گدگداتا ہے
مگر چادر سے باہر پاؤں پھیلانا نہیں آتا
سراپا راز ہوں، میں کیا بتاؤں کون ہوں، کیا ہوں
سمجھتا ہوں، مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا
یاس یگانہ
No comments:
Post a Comment