Thursday 19 November 2015

غم میں یکساں بسر نہیں ہوتی

غم میں یکساں بسر نہیں ہوتی
شب کوئی بے سحر نہیں ہوتی
فرق ہے شمع و جلوہ میں ورنہ
روشنی کس کے گھر نہیں ہوتی
یا مِرا ظرفِ کیف بڑھ جاتا
یا شراب اس قدر نہیں ہوتی
بات کیا ہے کہ بات بھی ہم سے
آپ کو دیکھ کر نہیں ہوتی
قدر کر بے قرارئ دل کی
یہ تڑپ عمر بھر نہیں ہوتی
اور گھر میں دھواں سا گھٹتا ہے
دل جلا کر سحر نہیں ہوتی
بے ہنر ہو صبا تمہی، ورنہ
کیسے قدرِ ہنر نہیں ہوتی

صبا اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment