کہیں تو عشق کی آوارگی کو رنگ ملے
دیارِ گل نہیں ملتا، دیارِ سنگ ملے
ہمارے خون میں نہا کر بہار جب گزری
دھواں دھواں تھے جو چہرے وہ رنگ رنگ ملے
تِری گلی میں نہ جائیں تو پھر کہاں جائیں
سبھی ہیں غیر بھی اپنے بھی، اب یہ کیا کہیے
کدھر سے پھول ملے، کدھر سے سنگ ملے
سنا ہے راہ میں کانٹوں نے سر اٹھایا ہے
ہماری آبلہ پائی کو اذنِ جنگ ملے
ورق ورق پہ نمایاں تھی اک نئی تحریر
حجابِ گل میں بھی کتنے حجابِ رنگ ملے
بتا سکیں گے وہی کچھ حقیقتِ پرواز
جنہیں زمیں کی طرح آسماں بھی تنگ ملے
نصیب سب کو کہاں عزتِ شناسائی
اٹھا کے سر کو جو گزرے انہی کو سنگ ملے
یہ سب غزل کی لطافت کا فیض ہے شاعرؔ
نئے نئے جو ہمیں سوچنے کے ڈھنگ ملے
شاعر لکھنوی
No comments:
Post a Comment