دار تک آئے حریم لب و رخسار سے لوگ
باخبر کتنے ہیں حالات کی رفتار سے لوگ
دوست بن جاتے ہیں پیرایۂ اظہار سے لوگ
زخم دینے کو بھی آتے ہیں بڑے پیار سے لوگ
پرسشِ غم سے نئے زخم کھلا دیتے ہیں
دل جو ارزاں ہے تو بے مول بھی بک جائے گا
پہلے مانوس تو ہوں چشمِ خریدار سے لوگ
اس کی معصوم نگاہی کا اثر کیا کہیے
بے خطا بھی ہوں تو لگتے ہیں خطاوار سے لوگ
ڈھونڈنے کے لیے آوارہ مزاجی کا جواز
پھول تک آ گئے ان کے لب و رخسار سے لوگ
ہونے والا ہے کسی صبحِ طرب کا آغاز
جاگ اٹھے ہیں مِری زنجیر کی جھنکار سے لوگ
سرِ سودا کی تواضع کے لیے اے شاعرؔ
سنگِ آوارہ اٹھا لائے ہیں بازار سے لوگ
شاعر لکھنوی
No comments:
Post a Comment