بلبل سنے نہ کیونکہ قفس میں چمن کی بات
آوارۂ وطن کو لگے خوش وطن کی بات
مت پوچھ حال اپنے تُو بیمارِ عشق کا
ہونے لگی اب اس کی تو گور و کفن
عیش طرب کا ذکر کروں کیا میں دوستو
ناصح! میں کیا کہوں کہ ہوا کس طرح سے چاک
دستِ جنوں سے پوچھو مِرے پیرہن کی بات
سر دیجئے رہِ عشق میں پر منہ نہ موڑیئے
پتھر کی سی لکیر ہے یہ کوہکن کی بات
یارو! میں کیا کہوں کہ جلا کس طرح پتنگ
پوچھو زبانِ شمع سے اس کی لگن کی بات
شاید اسی کا ذکر ہو ہر رہگزرمیں، میں
سنتا ہوں گوشِ دل ہر اک مرد و زن کی بات
سنتا ہوں گوشِ دل سے ہر اک مرد و زن کی بات
جرأتؔ! خزاں کے آتے چمن میں رہا نہ کچھ
اک رہ گئی زباں پہ، گل و یاسمن کی بات
قلندر بخش جرأت
No comments:
Post a Comment