کیوں دِلا! ہم ہوئے پابندِ غمِ یار کہ تُو
اب اذیت میں بھلا ہم ہیں گرفتار کہ تُو
ہم تو کہتے تھے نہ عاشق ہو اب اتنا تو بتا
جا کے ہم روتے ہیں پہروں پسِ دیوار کہ تُو
ہاتھ کیوں عشقِ بتاں سے نہ اٹھایا تُو نے
وہی محفل ہے، وہی لوگ، وہی چرچا ہے
اب بھلا بیٹھے ہیں ہم شکلِ گنہگار کہ تُو
ہم تو کہتے تھے کہ لب سے نہ لگا ساغرِ عشق
مئے اندوہ سے اب ہم ہوئے سرشار کہ تُو
بے جگہ جی کا پھنسانا تھا تجھے کیا درکار
طعن و تشنیع کے اب ہم ہیں سزاوار کہ تُو
وحشتِ عشق بری ہوتی ہے دیکھا ناداں
ہم چلے دشت کو اب چھوڑ کے گھر بار کہ تُو
آتشِ عشق کو سینے میں عبث بھڑکایا
اب بھلا کھینچوں ہوں میں آہِ شرربار کہ تُو
ہم تو کہتے تھے نہ ہمراہ کسی کے لگ چل
اب بھلا ہم ہوئے رسوا سرِ بازار کہ تُو
غور کیجے تو یہ مشکل ہے زمیں اے جرأتؔ
دیکھیں ہم اس میں کہیں اور بھی اشعار کہ تُو
قلندر بخش جرأت
No comments:
Post a Comment