اہلِ طوفاں آؤ! دل والوں کا افسانہ کہیں
موج کو گیسو، بھنور کو چشم جاناناں کہیں
دار پر چڑھ کر لگائیں نعرۂ زلف صنم
سب ہمیں باہوش سمجھیں چاہے دیوانہ کہیں
یارِ نکتہ داں کدھر ہے، پھر چلیں اس کے حضور
سرخئ مے کم تھی میں نے چھُو لیے ساقی کے ہونٹ
سر جھکا ہے جو بھی اب اربابِ مے خانہ کہیں
تشنگی ہی تشنگی ہے، کس کو کہیے مے کدہ
لب ہی لب ہم نے تو دیکھے، کس کو پیمانہ کہیں
پارۂ دل ہے وطن کی سرزمیں مشکل ہے یہ
شہر کو ویراں کہیں یا دل کو ویرانہ کہیں
اے رخِ زیبا بتا دے اور ابھی ہم کب تلک
تیرگی کو شمع، تنہائی کو پروانہ کہیں
آرزو ہی رہ گئی مجروحؔ کہتے ہم کبھی
اک غزل ایسی جسے تصویرِ جانانہ کہیں
مجروح سلطانپوری
No comments:
Post a Comment