Monday 16 November 2015

بھولی بسری چند امیدیں چند فسانے یاد آئے

بھولی بسری چند امیدیں چند فسانے یاد آئے
تم یاد آئے اور تمہارے ساتھ زمانے یاد آئے
دل کا چمن شاداب تھا پھر بھی خاک سی اڑتی رہتی ہے
کیسے زمانے، اے غمِ جاناں! تیرے بہانے یاد آئے
ہنسنے والوں سے ڈرتے تھے چھپ چھپ کر رو لیتے تھے
گہری گہری سوچ میں ڈوبے دو دیوانے یاد آئے
ٹھنڈی سرد ہوا کے جھونکے آگ لگا کر چھوڑ گئے
پھول کھلے شاخوں پہ نئے، اور درد پرانے یاد آئے

رضی ترمذی

No comments:

Post a Comment