Monday 16 November 2015

نہ ابر ہے نہ ہوا نیند کیوں نہیں آتی

نہ ابر ہے نہ ہوا نیند کیوں نہیں آتی
برس چکی ہے گھٹا، نیند کیوں نہیں آتی
نئے نئے تھے جدائی کے دن تو بات بھی تھی
وہ دور بیت چکا،  نیند کیوں نہیں آتی
بچھڑ بھی جاتے ہیں دنیا میں چاہنے والے
چلو ہوا سو ہوا،  نیند کیوں نہیں آتی
یہ اضطراب کہاں تک جگائے گا مجھ کو
کہ چاند ڈوب چکا، نیند کیوں نہیں آتی
یہ رت جگے دلِ بے تاب مار ڈالیں گے
کیا علاج ہے کیا، نیند کیوں نہیں آتی 
شبِ فراق سے شکوہ نہیں مجهے، لیکن
بس اس قدر ہے گلہ، نیند کیوں نہیں آتی

رضی ترمذی

No comments:

Post a Comment