جب یہ جانِ حزیں وقفِ آلام ہوئی
وہ ساعت کیسے کیسے بدنام ہوئی
دل میں میٹھے میٹھے درد کے پھول کھلے
پھر یادوں کی ہوا چلی پھر شام ہوئی
تیری خاطر تیرا نام نہ لیتے تھے
ہائے وہ کیسا خواب تھا برسوں بیت گئے
جب س آنکھیں کھولیں ، نیند حرام ہوئی
کون پکارے گا یوں تجھ کو دیکھ نہ جا
دل کی اِک اِک دھڑکن تیرا نام ہوئی
عشق سفر تھا تنہائی کے صحرا کا
تم سے رسم و راہ تو دو اِک گام ہوئی
جیسے صدیوں سے اِک خالی بند مکان
یوں اس شہر میں اپنی عمر تمام ہوئی
تیری یادوں کی دہلیز پہ بیٹھ گئے
جب بھی سعئی ترکِ وفا ناکام ہوئی
شہروں شہروں مال و زر کی چیخ پکار
درد کی دولت اِک ہم کو انعام ہوئی
رضی ترمذی
No comments:
Post a Comment