زخم سینے کے دھو لیے جائیں
چار آنسو ہیں، رو لیے جائیں
اس کی چھاگل میں آبِ لمس نہیں
جان سے ہاتھ دھو لیے جائیں
زندہ ہونا کچھ اور ہوتا ہے
خامشی بوجھ ہے سماعت پر
ہم سے اتنا ہی بولیے، جائیں
اس قدر حبس میں غنیمت ہیں
سانس جو ایک دو لیے جائیں
آپ آئیں تو غم کی مالا میں
چند موتی پرو لیے جائیں
غم میں تکرارِ بیش و کم کیسی
ان سے مِلتا ہے جو، لیے جائیں
سینکڑوں آنسوؤں کی قیمت پر
خواب بس ایک دو لیے جائیں
اُن کو منزل سے قیمتی سمجھو
رنج راہوں سے جو لیے جائیں
دِل میں سیلاب آ چکا نیرؔ
اب کِنارے بِھگو لیے جائیں
شہزاد نیر
No comments:
Post a Comment