بھیدی تو یہیں گھر کے مکینوں میں ملے گا
طوفان بہرحال سفینوں میں ملے گا
سجدے جو چکائے ہیں غلط نقشِ قدم پر
اک داغ بھی تابندہ جبینوں میں ملے گا
سنتا ہوں کہ قائل ہے مِری طنز کا وہ بھی
پہلے تو ہمیں آپ سے امید نہیں ہے
اک جام ملا بھی تو مہینوں میں ملے گا
تائیدِ وفا، بزمِ حسیناں میں نہیں ہے
ذکر اس کا شب و روز حسینوں میں ملے گا
چڑھتے ہوئے اس دور کا ہر نقش مظفرؔ
تم کو مِرے اشعار کے زینوں میں ملے گا
مظفر حنفی
No comments:
Post a Comment