Monday, 16 November 2015

بھیدی تو یہیں گھر کے مکینوں میں ملے گا

بھیدی تو یہیں گھر کے مکینوں میں ملے گا
طوفان بہرحال سفینوں میں ملے گا
سجدے جو چکائے ہیں غلط نقشِ قدم پر
اک داغ بھی تابندہ جبینوں میں ملے گا
سنتا ہوں کہ قائل ہے مِری طنز کا وہ بھی
ڈوبا ہوا ہر وقت پسینوں میں ملے گا
پہلے تو ہمیں آپ سے امید نہیں ہے
اک جام ملا بھی تو مہینوں میں ملے گا
تائیدِ وفا، بزمِ حسیناں میں نہیں ہے
ذکر اس کا شب و روز حسینوں میں ملے گا
چڑھتے ہوئے اس دور کا ہر نقش مظفرؔ
تم کو مِرے اشعار کے زینوں میں ملے گا

مظفر حنفی 

No comments:

Post a Comment