ہاتھ بندھے ہیں، آنکھ مُندی ہے لیکن اس سے حاصل کیا
خون اگر حِدت رکھتا ہو، مقتل کیا ہے قاتل کیا
پیروں میں دو چار پھپھولے، سر میں تھوڑی گردِ سفر
وحشت کو اتنا ہی بہت ہے، بنجاروں کی منزل کیا
مٹی اور پسینہ مل کر خوشبو دینے لگتے ہیں
تختے پر بہتے پھرتے تھے موج میں تھے ہم لیکن آج
موجیں سر دُھنتی پھرتی ہیں، ڈوب رہا ہے ساحل کیا
آندھی کے ہمراہ رہیں تو ذرے اوپر اٹھتے ہیں
خاک بسر ٹھوکر کھاتے ہیں، تُو کیا اور تیرا دل کیا
آئینہ تو آج مظفرؔ لے آئے بازار سے ہم
اب چہرہ بھی لانا ہو گا آئینے کے قابل کیا
مظفر حنفی
No comments:
Post a Comment