بیمار انا کے ہاتھوں میں جب فرعون خدا بن جاتے ہیں
ان کے ہی محلوں میں پل کر بچے موسیٰؑ بن جاتے ہیں
ہم سجدے میں جھک جاتے ہیں چاہے گردن پر خنجر ہو
اپنا سر اونچا رکھنے کو خود ہی نیزہ بن جاتے ہیں
یہ سیلِ فنا، وہ جوشِ نمو، پیہم آویزش دونوں میں
کانٹوں سے کہو ہُشیار رہیں، نورانی ہیں وہ سب چہرے
پہلے پھولوں کو ڈستے ہیں، پھر بادِ صبا بن جاتے ہیں
کھِلتے ہیں پھول ارمانوں کے پڑتی ہے اوس امیدوں پر
ہم سے جب آنکھیں ملتی ہیں، وہ لاپروا بن جاتے ہیں
ہم ہیں کہ مظفرؔ خاک ہوئے، سنتے تھے کہ ان کے پاس آ کر
ذرے سورج ہو جاتے ہیں، قطرے دریا بن جاتے ہیں
مظفر حنفی
No comments:
Post a Comment