Monday 16 November 2015

بیمار انا کے ہاتھوں میں جب فرعون خدا بن جاتے ہیں

بیمار انا کے ہاتھوں میں جب فرعون خدا بن جاتے ہیں
ان کے ہی محلوں میں پل کر بچے موسیٰؑ بن جاتے ہیں
ہم سجدے میں جھک جاتے ہیں چاہے گردن پر خنجر ہو
اپنا سر اونچا رکھنے کو خود ہی نیزہ بن جاتے ہیں
یہ سیلِ فنا، وہ جوشِ نمو، پیہم آویزش دونوں میں
جنگل میں بستی اگتی ہے، قریے صحرا بن جاتے ہیں
کانٹوں سے کہو ہُشیار رہیں، نورانی ہیں وہ سب چہرے
پہلے پھولوں کو ڈستے ہیں، پھر بادِ صبا بن جاتے ہیں
کھِلتے ہیں پھول ارمانوں کے پڑتی ہے اوس امیدوں پر
ہم سے جب آنکھیں ملتی ہیں، وہ لاپروا بن جاتے ہیں
ہم ہیں کہ مظفرؔ خاک ہوئے، سنتے تھے کہ ان کے پاس آ کر
ذرے سورج ہو جاتے ہیں، قطرے دریا بن جاتے ہیں

مظفر حنفی 

No comments:

Post a Comment