لرز لرز کے دلِ ناتواں ٹھہر ہی نہ جائے
فراقِ ساز، کہیں روحِ نغمہ مر ہی نہ جائے
اتار لے کسی شیشے میں ساعتِ نغمہ
صدائے قافلۂ گل کہیں بکھر ہی نہ جائے
سنا بھی دے کدی گل کو فسونِ تنہائی
کسی کو مہلتِ ہستی بھی دے غمِ جاناں
یہ کیا کہ آئے کوئی تو پلٹ کے گھر ہی نہ جائے
ہے ایک قلزمِ خوں قریۂ جنوں سے ادھر
یہاں جو آئے کوئی اس کی پھر خبر ہی نہ جائے
نگاہِ یار! غمِ جاں گسل کا کیا ہو گا
تِرے کرم سے نصیبِ وفا سنور ہی نہ جائے
وہ خوش مزاج ہے، اس کو الم سے کیا نسبت
سنا نہ عشق کا غم، عشق سے وہ ڈر ہی نہ جائے
بجا کہ جاں سے گزرا بہت کٹھن ہے، مگر
تِرے نثار، کوئی ایسا کام کر ہی نہ جائے
بہا دے آج کچھ آنسو، کہ پھر غنیمت ہیں
چڑھا ہے آج جو دریا، وہ کل اتر ہی نہ جائے
اسلم انصاری
No comments:
Post a Comment