Thursday, 19 November 2015

درس آداب جنوں یاد دلانے والے

درس آداب جنوں یاد دلانے والے
آ گئے پھر مِری زنجیر ہلانے والے
کس طرح کھوئے گئے عکسِ رواں کی صورت
شہرِ حیراں میں تِرا کھوج لگانے والے
خمِ محراب پہ صدیوں کی سیہ گرد بھی دیکھ
طاقِ ویراں میں لہو اپنا جلانے والے
غور سے دیکھ، کوئی ہے پسِ تصویرِ خزاں
ورنہ، کس سمت کئے رنگ جمانے والے
فصلِ بے برگ کچھ ایسی بھی تو بے رنگ نہیں
داستاں عہدِ بہاراں کی سنانے والے
زہرابِ زہر ہے کرتا نہیں کارِ تریاک
مر گئے زہر کا تریاک بنانے والے
دفِ گل ٹوٹ گئی دستِ صبا میں، لیکن
رقص کرتے رہے وجد میں آنے والے
بجھ گئے شوخ دریچوں میں سلگتے مہتاب
سو گئے رات کی تقدیر جگانے والے
منتظر سب ہیں مگر سب کو یہی دھڑکا ہے
اس خرابے کو پلٹتے نہیں جانے والے

اسلم انصاری 

No comments:

Post a Comment