شکستہ پا ہیں مگر پھر بھی چلتے جاتے ہیں
یہ کون لوگ ہیں، گر کر سنبھلتے جاتے ہیں
عجب نہیں کہ نظامِ جہاں بدل جائے
خیال و حرف کے رشتے بدلتے جاتے ہیں
کوئی بچا نہیں پاتا ہے اپنی ہستی کو
بہت ہی کم ہیں جنہیں پاسِ حُرمتِ گل ہے
وگرنہ لوگ تو اکثر مسلتے جاتے ہیں
جو چاہتے ہیں حریمِ بہار تک جانا
غبارِ رنگ کو چہروں پہ ملتے جاتے ہیں
نہیں ہے عشق و جنوں کو مبارزت کی طلب
کہ حادثاتِ جہاں خود ہی ٹلتے جاتے ہیں
اسلم انصاری
No comments:
Post a Comment