Thursday 19 November 2015

ظرف عالی ہوں کہ بھر کر بھی کبھی چھلکا نہیں

ظرفِ عالی ہوں کہ بھر کر بھی کبھی چھلکا نہیں
ہوں وہ دریا جو کناروں پہ کبھی بہتا نہیں
ہوں وہ پیمانہ کہ محفل جس کو ہاتھوں ہاتھ لے
میں وہ نشہ ہوں جو سر چڑھ کر کبھی اترا نہیں
کشتِ ہستی! تُو مجھے پہچان، تیری آس ہوں
میں وہ بادل ہوں جو اب تک ٹوٹ کر برسا نہیں
خواب ہوں لیکن اگر تعبیر خود اپنی کروں
میں نہیں یا پھر مِری دنیا کا یہ نقشہ نہیں
دوں کسے آواز، اپنے آپ کو کیسے جگاؤں
تُو مِرے دل میں تو ہے لیکن مِری سنتا نہیں
اس فقیری میں بھی للچاتی ہے دنیا کی جھلک
میں کہوں کیسے کہ اس کے پاس سے گزرا نہیں
فاصلے قربت بنے، اب قربتیں ہیں فاصلہ
وہ جو پہلو میں ہے میرے دھیان میں آتا نہیں
دیکھتے ہو تم جسے ہر آن میرے ساتھ ساتھ
وہ مِری آشفتگی ہے، وہ مِرا سایہ نہیں
عزتِ سادات ہے محفوظ باقرؔ میرے پاس
میں وہ عاشق ہوں جو اب تک شہر میں رسوا نہیں

سجاد باقر رضوی

No comments:

Post a Comment