جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں
بہ حالِ گمرہی پایا گیا ہوں
حرم سے دَیر میں لایا گیا ہوں
بلا کافی نہ تھی اک زندگی کی
برنگ لالۂ ویرانہ، بے کار
کھِلایا اور مُرجھایا گیا ہوں
اگرچہ ابرِ گوہر بار ہوں میں
مگر آنکھوں سے برسایا گیا ہوں
سپُرد خاک ہی کرنا ہے مجھ کو
تو پھر کاہے کو نہلایا گیا ہوں
فرشتے کو نہ میں شیطان سمجھا
نتیجہ یہ کہ بہکایا گیا ہوں
کوئ صنعت نہیں مجھ میں تو پھر کیوں
نمائش گاہ میں لایا گیا ہوں
بقولِ برہمن، قہرِ خدا ہوں
بتوں کے حسن پر ڈھایا گیا ہوں
مجھے تو اس خبر نے کھو دیا ہے
سنا ہے میں کہیں پایا گیا ہوں
حفیظؔ اہل زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
حفیظ جالندھری
No comments:
Post a Comment