ان تلخ آنسوؤں کو نہ یوں منہ بنا کے پی
یہ مے ہے خود کشید، اسے مسکرا کے پی
اتریں گے کس کے حلق سے یہ دلخراش گھونٹ
کس کو پیام دوں، کہ مِرے ساتھ آ کے پی
مشروب جامِ جَم نہیں، غم ہے تِرا علاج
واعظ کی اب نہ مان، اگر جان ہے عزیز
اِس دور میں یہ چیز بطور اِک دوا کے پی
بھر لے پیالہ خم کدۂ زیست سے حفیظؔ
خونِ جگر ہے، سامنے چل کر خدا کے پی
حفیط جالندھری
No comments:
Post a Comment