کیسے بند ہوا مے خانہ اب معلوم ہوا
پی نہ سکا کم ظرف زمانہ، اب معلوم ہوا
اب ہوش آیا، حالِ زمانہ، اب معلوم ہوا
سب فرزانے، میں دیوانہ، اب معلوم ہوا
محفل خوش کیوں تھی، یہ حقیقت اب معلوم ہوئی
اللہ اللہ کار گزاری ان فرزانوں کی
یوں تعمیر ہوا ویرانہ، اب معلوم ہوا
خالی شیشے طاق پہ دھرتا جاتا ہے ساقی
بھرتا جاتا ہے پیمانہ، اب معلوم ہوا
خوش تھے، آنکھوں سے کیا رنگیں چشمہ پھُوٹا ہے
ٹوٹا ہے دل کا پیمانہ، اب معلوم ہوا
دل نے آنکھوں تک آنے میں اتنا وقت لیا
دپور تھا کعبے سے بت خانہ، اب معلوم ہوا
زر سہلاتا شہرِ سخن سے باہر نکلا ہوں
زور پہ ہے مشقِ طِفلانہ، اب معلوم ہوا
حفیظ جالندھری
No comments:
Post a Comment