Monday 16 November 2015

دیا جلے ساری رات

گیت

دِیا جلے ساری رات
جل جل جائے، نِیر بہائے، مجھ بِرہن کے ساتھ
دِیا جلے ساری رات

پہنے سر پر تاج اگن کا
بھیدی میرے دُکھیا من کا
لایا اس اندھیارے گھر میں اشکوں کی سوغات
دِیا جلے ساری رات

قسمت نے کیا رنگ دکھایا 
دُکھیا کے گھر دُکھیا آیا
مانگ رہے ہم اِک دُوجے سے خوشیوں کی خیرات
دِیا جلے ساری رات

دُور کہیں باجے شہنائی 
تڑپ رہی اپنی تنہائی
جیت کے آج وفا کی بازی، پیار نے مات کھائی
دِیا جلے ساری رات

پل بھر آس کے جگنو چمکے 
پھیل گئے پھر سائے غم کے
چھوڑ دیا اِک ہرجائی نے تھام کے میرا ہاتھ
دِیا جلے ساری رات

جل تھل جل تھل بھیگی پلکیں 
پلک پلک میرے آنسو چھلکیں
برس رہی ہے دو نینوں سے بِن بادل برسات 
دِیا جلے ساری رات

ٹُوٹ گئے کیوں پیار پرانے 
میں جانُوں یا دِیپک جانے
جلتے جلتے جل جائے پر کہے نہ دل کی بات
دِیا جلے ساری رات

بھُول گئیں موہے سب رنگ رلیاں 
بکھر گئیں آشا کی کلیاں
ایسی چلی بِرہا کی آندھی ڈال رہے ناں پات 
دِیا جلے ساری رات

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment