Monday 16 November 2015

کسی کے دوش نہ مرکب سے استفادہ کیا

کسی کے دوش نہ مرکب سے استفادہ کیا
یہاں تلک کا سفر ہم نے پا پیادہ کیا
جہاں پہ دیکھے قدم اپنے کچھ بھٹکتے ہوئے
وہیں ٹھہر کے فروزاں چراغِ بادہ کیا
لباس بدلے نہیں ہم نے موسموں کی طرح
کہ زیب تن جو کیا ایک ہی لبادہ کیا
امیرِ شہر سبھی تھے شریکِ مشقِ ستم
کسی نے کم تو کسی نے ستم زیادہ کیا
ہر ایک بار قدم بت کدے میں لوٹ آئے
خدا گواہ ہے مسجد کا جب ارادہ کیا
بچھڑنے والوں میں ہم جس سے آشنا کم تھے
نہ جانے دل نے اسے یاد کیوں زیادہ کیا
کوئی اکیلا تو میں سادگی پسند نہ تھا
پسند اس نے بھی رنگوں میں رنگ سادہ کیا
بہت ہی تنگ تھی محسنؔ یہ راہگزارِ غزل
ہم اہلِ فکر و نظر نے اسے کشادہ کیا

محسن زیدی

No comments:

Post a Comment