کسی کے دوش نہ مرکب سے استفادہ کیا
یہاں تلک کا سفر ہم نے پا پیادہ کیا
جہاں پہ دیکھے قدم اپنے کچھ بھٹکتے ہوئے
وہیں ٹھہر کے فروزاں چراغِ بادہ کیا
لباس بدلے نہیں ہم نے موسموں کی طرح
امیرِ شہر سبھی تھے شریکِ مشقِ ستم
کسی نے کم تو کسی نے ستم زیادہ کیا
ہر ایک بار قدم بت کدے میں لوٹ آئے
خدا گواہ ہے مسجد کا جب ارادہ کیا
بچھڑنے والوں میں ہم جس سے آشنا کم تھے
نہ جانے دل نے اسے یاد کیوں زیادہ کیا
کوئی اکیلا تو میں سادگی پسند نہ تھا
پسند اس نے بھی رنگوں میں رنگ سادہ کیا
بہت ہی تنگ تھی محسنؔ یہ راہگزارِ غزل
ہم اہلِ فکر و نظر نے اسے کشادہ کیا
محسن زیدی
No comments:
Post a Comment