ایسے پت جھڑ میں کہاں کوئی ٹھکانا اپنا
اب وہ پتے ہیں نہیں جن پہ تھا تکیا اپنا
صبح ہو جائے گی اپنی بھی بہا کر آنسو
شمع کی طرح ہے شب بھر کا فسانا اپنا
مدتوں سے ہمیں اپنی بھی نہ پہچان رہی
اک تعلق ہے ہمیں غم سے، کسی کا غم ہو
ہر دُکھے دل سے ہئ نزدیک کا رشتا اپنا
تہ بہ تہ اب جہاں مٹی کے سوا کچھ بھی نہیں
ایک کتبے پہ وہیں نام لکھا تھا اپنا
کم ہی احساس کو پیرایۂ اظہار مِلا
آ سکا کچھ ہی سرِ عام دفینا اپنا
اب کڑی دھوپ ہے اور دربدری کا عالم
لے گیا سر سے وہ جاتے ہوئے سایا اپنا
ایک مدت ہوئی ہم خود سے خجل بیٹھے ہیں
کر لیا تھا کبھی ہم نے بھی بھروسا اپنا
سنگ زاروں میں دکھائی کہاں دے گا محسنؔ
ڈھانڈنے نکلے تو ہو نقشِ کفِ پا اپنا
محسن زیدی
No comments:
Post a Comment