Monday, 16 November 2015

کچھ کم تو نہیں تھے ہم بھی کسی اعتبار سے

کچھ کم تو نہیں تھے ہم بھی کسی اعتبار سے
خم کھا گئے اپنی شکستوں کے بار سے
کس کو ہے اب دماغ تمنائے رنگ و بو
نادم ہیں دل کے جذبۂ بے اختیار سے
کوئی سکون پا نہ سکے جس کی چھاؤں میں
کیا فائدہ ہے اس شجرِ سایہ دار سے
کندن بنے ہیں آتشِ قلب و جگر سے ہم
بہتر ہے اپنا غم طربِ مستعار سے
بے مہر موسموں کی تلاطم میں گھر گیا
دل کو بچا کے لائے تھے اس رہگزار سے
شاید کہ تیرگی چھٹے، شاید کہ پو پھٹے
حالات اب ہوئے تو ہیں کچھ سازگار سے
فارغؔ دلِ فگار گلستاں سے کم نہیں
نسبت ہے ایک گونہ ہمیں گل بہار سے

فارغ بخاری

No comments:

Post a Comment