کچھ کم تو نہیں تھے ہم بھی کسی اعتبار سے
خم کھا گئے اپنی شکستوں کے بار سے
کس کو ہے اب دماغ تمنائے رنگ و بو
نادم ہیں دل کے جذبۂ بے اختیار سے
کوئی سکون پا نہ سکے جس کی چھاؤں میں
کندن بنے ہیں آتشِ قلب و جگر سے ہم
بہتر ہے اپنا غم طربِ مستعار سے
بے مہر موسموں کی تلاطم میں گھر گیا
دل کو بچا کے لائے تھے اس رہگزار سے
شاید کہ تیرگی چھٹے، شاید کہ پو پھٹے
حالات اب ہوئے تو ہیں کچھ سازگار سے
فارغؔ دلِ فگار گلستاں سے کم نہیں
نسبت ہے ایک گونہ ہمیں گل بہار سے
فارغ بخاری
No comments:
Post a Comment