Monday 16 November 2015

ہاں ہمیں ہے غرور کہتے ہیں

ہاں ہمیں ہے غرور کہتے ہیں
تجھ کو اپنا حضور کہتے ہیں
کوئی کہتا نہیں خدا بت کو
عشق والے ضرور کہتے ہیں
وہ نشہ چھا گیا تِرا جانم
عشق کو اب سرور کہتے ہیں
ہم تو دیوانگی میں ہنستے ہیں
لوگ اس کو قصور کہتے ہیں
یہ تِرے حسن کا تصور ہے
پاس ہوتا ہے، دور کہتے ہیں
تیرے چہرے سے رات چمکی ہے
اس لیے تجھ کو نور کہتے ہیں
آ مِری جان میں سما جا اب
یہ ضیاؔ با شعور کہتے ہیں

ضیا علوی

No comments:

Post a Comment