Thursday 19 November 2015

راہوں کے اونچ نیچ ذرا دیکھ بھال کے

راہوں کے اونچ نیچ ذرا دیکھ بھال کے
ہاں راہروِ مراد! قدم رکھ سنبھال کے
فتنوں کو دیکھ، اپنے قدم روک، بیٹھ جا
راتیں یہ آفتنوں کی ہیں، یہ دن وبال کے
لمحوں کی لے پہ گزری ہیں راتیں نشاط کی
کس دُھن میں دن کٹیں گے یہ رنج و ملال کے
میں سرگراں تھا ہجر کی راتوں کے قرض سے
مایوس ہو کے لوٹ گئے دن وصال کے
کچھ یہ نہ تھا کہ میں نے نہ سمجھی بساطِ دہر
میں خود ہی کھیل ہار گیا دیکھ بھال کے
تخلیق ہے مِری، تِری تخلیق سے الگ
میں بھی بناتا رہتا ہوں پیکر خیال کے
پیاسی زمینِ دل ہے، پڑا قحطِ وصلِ شوق
ہاں اے ہوا! کدھر گئے دن برشگال کے
باقرؔ! یہ دانت بیچ زباں بند کیوں ہوئی
قائل تو آپ بھی تھے بہت قیل و قال کے

سجاد باقر رضوی

No comments:

Post a Comment