Thursday 19 November 2015

زہر ان کے ہیں مرے دیکھے ہوئے بھالے ہوئے

زہر ان کے ہیں مِرے دیکھے ہوئے بھالے ہوئے
یہ تو سب اپنے ہیں زیرِ آستیں پالے ہوئے
ان کے بھی موسم ہیں، ان کے بھی نکل آئیں گے ڈنک
بے ضرر سے اب جو بیٹھے ہیں سپر ڈالے ہوئے
بڑھ کے جو منظر دکھاتے تھے کبھی سیلاب کا
گھٹ کے وہ دریا، زمیں پر رینگتے نالے ہوئے
چھلکی ہر موجِ بدن سے حسن کی دریا دلی
بوالہوس کم ظرف، دو چُلّو میں متوالے ہوئے
کھُل گئے تو بُوئے معنی ہر طرف اڑتی پھِری
بند ہو کر لفظ باقرؔ نطق پر تالے ہوئے

سجاد باقر رضوی

No comments:

Post a Comment