Thursday 19 November 2015

الجھے الجھے دھاگے دھاگے سے خیالوں کی طرح

الجھے الجھے دھاگے دھاگے سے خیالوں کی طرح
ہو گیا ہوں ان دنوں تیرے سوالوں کی طرح
اپنے دل کی وسعتوں میں ہر طرف بھٹکا پھرا
بے کراں، روشن سرابوں میں غزالوں کی طرح 
یہ مِرا احساس ہے، یا جبرِ مسلسل کا اثر
اب کی رت مہکے نہیں گل پچھلے سالوں کی طرح
اک حقیقت وہم سے الجھی ہوئی ہے ہر طرف
سارا عالم ہے دھواں، میرے خیالوں کی طرح
کشتۂ دوراں سہی، پر تجھ سے نسبت تو ہے
میری دنیا ہے پریشاں تیرے بالوں کی طرح
اک دھڑکتا دل کوئی ان کی کتابوں میں رکھ آئے
جو غزل لکھتے ہیں تحقیقی مقالوں کی طرح
دشتِ غم میں آندھیوں کے وار سہنے کے لیے
خشک پتے تن گئے ہیں آج ڈھالوں کی طرح
ظلمتِ مغرب کو خاطر کوئی یہ پیغام دے
ہم بھی اب ابھریں گے مشرق سے اجالوں کی طرح

خاطر غزنوی

No comments:

Post a Comment