Thursday 19 November 2015

کوئی کلی ہے نہ غنچہ نہ گل برائے صبا

کوئی کلی ہے نہ غنچہ نہ گل برائے صبا
چمن میں کانٹے ہیں، دامن بچا کے آئے صبا
نہ اب طلسمِ بہاراں، نہ اب فسونِ جمال
وہ لمحے خواب ہوئے، خواب بھول جائے صبا
کبھی فضاؤں میں خوشبو اڑائے پھرتی تھی
مگر یہ دن کہ بہاروں میں خاک اڑائے صبا
کلی ہے مہر بلب، پھول ہے گریباں چاک
اجل کی دھوپ ہے پھرتی ہے سائے سائے صبا
گھٹن ہے ایسی کہ صرصر کو بھی ترستے ہیں
کسے پکاریں، کہاں جائیں، اے خدائے صبا
خبر نہیں مجھے کس سمت لے کے اڑ جائے
کئی دنوں سے مِرے سر میں ہے ہوائے صبا
حریمِ غنچہ میں خوشبو سمٹ کے بیٹھی ہے
حجاب اٹھے، جو صحنِ چمن میں آئے صبا
بھٹکتی پھرتی ہے صحرائے درد میں خاطرؔ
بچھڑ گیا ہو کوئی جیسے آشنائے صبا

خاطر غزنوی

No comments:

Post a Comment