شکوہ بھی کیجیے تو کہاں ہے روا ہمیں
سب کچھ ملا ہے ایک خوشی کے سوا ہمیں
رہزن کہاں کہ شومئ تقدیر جانتے
رستے میں مل گیا تھا کوئی خضرؑ سا ہمیں
زنجیرِ پا بنے گی یہ خوشبوئے گل کبھی
پانی میں ڈوب کر بھی چٹانیں وہیں رہیں
اور ہم کہ جذبِ دل پہ بھروسا رہا ہمیں
دل داغ داغ ہے تو بہاروں کا کیا قصور
دھوکا فصیلِ رنگ پہ خود ہو گیا ہمیں
آئینے تھے مگر کئی ٹوٹے ہوئے بھی تھے
خود اعتمادیوں نے صلہ کیا دیا ہمیں
ہو گئی کوئی تو بات جو ہم ان کے ہو رہے
سب کچھ بھلا کے یاد بس اتنا رہا ہمیں
ہم سے تو کچھ کہا تھا کسی کم نگاہ نے
اوروں کی بات چھوڑیے اوروں سے کیا ہمیں
کٹتی رہی ہے عمرِ گریزاں کی منزلیں
لے لو قسم جو کوئی شناسا ملا ہمیں
ہونٹوں کو مسکرانے کی عادت سی ہو گئی
دل بھی کہے میں ہوتا تو کیا تھا برا ہمیں
سامانِ فصلِ گل سے گریزاں رہے اداؔ
اعلانِ فصلِ گل پہ بھروسا رہا ہمیں
ادا جعفری
No comments:
Post a Comment