Monday, 16 November 2015

شکوہ بھی کیجیے تو کہاں ہے روا ہمیں

شکوہ بھی کیجیے تو کہاں ہے روا ہمیں
سب کچھ ملا ہے ایک خوشی کے سوا ہمیں
رہزن کہاں کہ شومئ تقدیر جانتے
رستے میں مل گیا تھا کوئی خضرؑ سا ہمیں
زنجیرِ پا بنے گی یہ خوشبوئے گل کبھی
وارفتگی میں دھیان کب اتنا رہا ہمیں
پانی میں ڈوب کر بھی چٹانیں وہیں رہیں
اور ہم کہ جذبِ دل پہ بھروسا رہا ہمیں
دل داغ داغ ہے تو بہاروں کا کیا قصور
دھوکا فصیلِ رنگ پہ خود ہو گیا ہمیں
آئینے تھے مگر کئی ٹوٹے ہوئے بھی تھے
خود اعتمادیوں نے صلہ کیا دیا ہمیں
ہو گئی کوئی تو بات جو ہم ان کے ہو رہے
سب کچھ بھلا کے یاد بس اتنا رہا ہمیں
ہم سے تو کچھ کہا تھا کسی کم نگاہ نے
اوروں کی بات چھوڑیے اوروں سے کیا ہمیں
کٹتی رہی ہے عمرِ گریزاں کی منزلیں
لے لو قسم جو کوئی شناسا ملا ہمیں
ہونٹوں کو مسکرانے کی عادت سی ہو گئی
دل بھی کہے میں ہوتا تو کیا تھا برا ہمیں
سامانِ فصلِ گل سے گریزاں رہے اداؔ
اعلانِ فصلِ گل پہ بھروسا رہا ہمیں

ادا جعفری

No comments:

Post a Comment