Monday 16 November 2015

دھوپ کے سائے شام دلہن کی طرح

 دھوپ کے سائے


شام دلہن کی طرح

اپنے رنگوں میں نہائی ہوئی شرمائی ہوئی بیٹھی ہے

گوشۂ چشم سے کاجل کی سیاہی ابھی آنسو بن کر

بہتے غازے میں نہیں جذب ہوئی

ابھی کھوئی نہیں بالوں کی دل افروز پریشانی میں

مسکراتی ہوئی سیندور کی مانگ

گھلتے رنگوں میں ابھی کاہش جاں باقی ہے

گھلتے رنگوں کا کوئی کیا جانے

کب مٹیں کیسے مٹیں

شب کی تاریکیاں ہر سمت بکھر جائیں تو آرام ملے

یہ چمکتے ہوئے ذرے نہ رہیں

ذوق تماشا نہ رہے

کوئی تمنا نہ رہے

اک کرن چھوڑ کے جاتی ہی نہیں

چشم گیں کرتی ہوئی کھیل رہی ہے اب تک

زرد رو گھاس کے سینے پہ تھرکتی ہوئی بڑھ جاتی ہے

سنگریزوں کی نگاہوں میں چمکتی ہوئی لوٹ آتی ہے

کوئی سمجھائے اسے جاؤ چلی جاؤ یہاں اب کیا ہے

دھوپ کے کانپتے سایوں کو ذرا بڑھنے دو

شب کی تاریکیاں چھا جانے دو

میں نے سو بار کہا ایک نہ مانی اس نے

مسکراتی ہوئی شاخوں پہ لرزتی ہی رہی

یوں بھی تڑپانے میں اک لطف تو ہے سوز تو ہے

رنگ گھلتے ہیں گھلیں گے آخر

گھلتے رنگوں کا کوئی کیا جانے

کب مٹیں کیسے مٹیں

اپنے رنگوں میں نہائی ہوئی شرمائی ہوئی

شام دلہن کی طرح بیٹھی رہی بیٹھی رہی 


الطاف گوہر

راجہ الطاف حسین جنجوعہ

No comments:

Post a Comment