کبھی خود شمع ہوتا ہے کبھی پروانہ ہوتا ہے
تِرا دیوانہ اے جاناں! بڑا مستانہ ہوتا ہے
عجب انداز کے جلوے دکھاتا ہے تُو ہر لمحہ
کہیں پہ کعبہ ہوتا ہے، کہیں بت خانہ ہوتا ہے
خدا محفوظ رکھے تیری آنکھوں کا نشہ ساقی
نرالی شان تیری ہے، تجھے پہچاننا مشکل
کبھی تُو جان ہوتا ہے، کبھی جانانہ ہوتا ہے
مِرے دل کو جلا کر پیش کرنا اور یہی کہنا
کہ یوں عاشق کی جانب سے تِرا نذرانہ ہوتا ہے
یہ کس کے عشق میں تبدیل ہوتی ہے فضا اتنی
کہیں پہ شہر بستا ہے، کہیں ویرانہ ہوتا ہے
فنا ہونے لگا ہوں میں صنم کے عشق میں جب سے
مِرا ہر دوست مجھ سے اب ضیاؔ بے گانہ ہوتا ہے
ضیا علوی
No comments:
Post a Comment