Tuesday 17 November 2015

کبھی در در پھراتا ہے کبھی در پر نچاتا ہے

کبھی در در پھراتا ہے کبھی در پر نچاتا ہے
صنم پردے کے اندر ہے، مجھے باہر نچاتا ہے
نشیلی آنکھ اس کی ہے، شرابی چال اس کی ہے
اسی آنکھوں کی مستی میں مجھے ساغر نچاتا ہے
عجب انداز سے وہ خوں بہاتا ہے مِرے دل کا
نظر سے قتل کرتا ہے، چھُپا خنجر نچاتا ہے
تماشا خود بناتا ہے، تماشے میں بھی رہتا ہے
جھلک دنیا کو دے دے کر مِرا دلبر نچاتا ہے
وہ جب بستی میں آتا ہے تو بستی اس کی ہوتی ہے
وہ جب بستی سے جاتا ہے تو ہر لشکر نچاتا ہے
اسی کے اک اشارے پر یہ شب دن میں بدلتی ہے
ضیاؔ وہ یار کیسا ہے، جو ہر منظر نچاتا ہے

ضیا علوی

No comments:

Post a Comment