کبھی در در پھراتا ہے کبھی در پر نچاتا ہے
صنم پردے کے اندر ہے، مجھے باہر نچاتا ہے
نشیلی آنکھ اس کی ہے، شرابی چال اس کی ہے
اسی آنکھوں کی مستی میں مجھے ساغر نچاتا ہے
عجب انداز سے وہ خوں بہاتا ہے مِرے دل کا
تماشا خود بناتا ہے، تماشے میں بھی رہتا ہے
جھلک دنیا کو دے دے کر مِرا دلبر نچاتا ہے
وہ جب بستی میں آتا ہے تو بستی اس کی ہوتی ہے
وہ جب بستی سے جاتا ہے تو ہر لشکر نچاتا ہے
اسی کے اک اشارے پر یہ شب دن میں بدلتی ہے
ضیاؔ وہ یار کیسا ہے، جو ہر منظر نچاتا ہے
ضیا علوی
No comments:
Post a Comment