Tuesday, 17 November 2015

نگاہیں مست آنکھیں مست لب سرشار ساقی ہے

نگاہیں مست آنکھیں مست لب سرشار ساقی ہے
قلندر مست ہر دم ہے کہ اب یار ساقی ہے
ادائیں مست، چہرہ مست، زلفیں بھی مہکتی ہیں
کہاں مے کی ضرورت ہے، جہاں عیار ساقی ہے
کشش دونوں کی بڑھ کر ہے نجانے دل کدھر جائے
سرِ مئے خانہ ساغر ہے، سرِ دربار ساقی ہے
یہاں مے کی پرستش ہے، وہاں مے کی نمائش ہے
فرشتوں کی نظر میں بھی مِرا دلدار ساقی ہے
یہاں شیخ و برہمن میں کوئی جھگڑا نہیں واعظ
یہ رِندوں کی جماعت ہے، علم بردار ساقی ہے
نہ جامِ جم کی حاجت ہے، نہ پیمانہ ضروری ہے
مِرے مے خانے میں اب تو نشہ بردار ساقی ہے
جسے مستی سے نفرت ہو، نکل جائے وہ بستی سے
زہے قسمت ضیاؔ دیکھو سرِ بازار ساقی ہے

ضیا علوی

No comments:

Post a Comment