Friday 20 November 2015

کیا آپ نے بھی ہجر کے بیمار کو دیکھا

کیا آپ نے بھی ہجر کے بیمار کو دیکھا
سنتے ہیں دعا مانگتے اغیار کو دیکھا
ہنگامہ یہ دیکھے ہوئے ہیں کون اٹھے گا
محشر کو نہ دیکھا، تِری رفتار کو دیکھا
دیں ابرِ کرم نے تِرے دامن کی ہوائیں
جب غرق غرق اپنے گنہ گار کو دیکھا
جا جا کے پلٹ آئے مِرے نالۂ دل سب
جب تنگ بہت گنبد و دوّار کو دیکھا
اب زندگی و موت تذبذب میں پڑی ہے
کیوں نزع کے وقت آپ نے بیمار کو دیکھا
کہتے نہ تھے اک آبلہ ہے پھُوٹ بہے گا
کیوں چھیڑ کے تم نے دلِ بیمار کو دیکھا
کیا گردشِ دوراں سے عزیزؔ اس کو تعلق
پھِرتے ہوئے جس نے نِگہِ یار کو دیکھا

عزیز لکھنوی

No comments:

Post a Comment