کیا آپ نے بھی ہجر کے بیمار کو دیکھا
سنتے ہیں دعا مانگتے اغیار کو دیکھا
ہنگامہ یہ دیکھے ہوئے ہیں کون اٹھے گا
محشر کو نہ دیکھا، تِری رفتار کو دیکھا
دیں ابرِ کرم نے تِرے دامن کی ہوائیں
جا جا کے پلٹ آئے مِرے نالۂ دل سب
جب تنگ بہت گنبد و دوّار کو دیکھا
اب زندگی و موت تذبذب میں پڑی ہے
کیوں نزع کے وقت آپ نے بیمار کو دیکھا
کہتے نہ تھے اک آبلہ ہے پھُوٹ بہے گا
کیوں چھیڑ کے تم نے دلِ بیمار کو دیکھا
کیا گردشِ دوراں سے عزیزؔ اس کو تعلق
پھِرتے ہوئے جس نے نِگہِ یار کو دیکھا
عزیز لکھنوی
No comments:
Post a Comment