Monday, 16 November 2015

بجھے بجھے سے چراغوں سے سلسلہ پایا

بجھے بجھے سے چراغوں سے سلسلہ پایا
ہجومِ یاس میں بھٹکے تو راستہ پایا
کسی خیال میں ابھرا، امید کا چہرہ
کسی امید میں پرتَو، خیال کا پایا
نہ جانے کتنے گھروندوں کو ٹوٹتے دیکھا
کسی کھنڈر میں تمنا کا نقشِ پا پایا
تمام رات نیا بت تراشتے گزری
ہوئی جو صبح تو اس بت کو ٹوٹتا پایا
قدم قدم پہ ملے یوں تو قہقہے بکھرے
درونِ جسم کوئی شخص چیختا پایا
طلسم ٹوٹ گیا، دُھند چھٹ گئی شاہدؔ
کہیں پہ ٹھہر کے سوچیں کہ ہم نے کیا پایا

شاہد ماہلی

No comments:

Post a Comment