Thursday, 19 November 2015

میں پڑوسی ہوں بڑے دیندار کا

میں پڑوسی ہوں بڑے دیں دار کا
کیا بگڑتا ہے مگر مے خوار کا
ہم وطن کے ہیں، وطن سرکار کا
حکم چلتا ہے مگر زردار کا
خشک لب کھیتوں کو پانی چاہیے
“کیا کریں گے ابرِ گوہر بار کا”
یہ ”چھچھورا شخص“ پہچانے اسے
خون ہے اس میں کسی سرکار کا
پھر رہا ہے ناک کٹوائے ہوئے
ہائے رتبہ شاعرِ دربار کا
سو گئی ہو جیسے گھوڑے بیچ کر
ہے وہ عالم قسمتِ بیدار کا
واں کسی انصاف کی امید کیا
ہو بڑا ٹکڑا جہاں سرکار کا
بعض احمق تک رہے ہیں آج بھی
آسرا گرتی ہوئی دیوار کا
جب سے پی ہے، پی رہا ہے آج تک
شیخ بھی ہے آدمی کردار کا
مجھ سے بہتر ہیں مِرے اشعار شادؔ
باڑھ کاٹے، نام ہو تلوار کا

شاد عارفی

No comments:

Post a Comment