Tuesday 17 November 2015

بغاوتیں بھی بہت بے وفائیاں بھی بہت

بغاوتیں بھی بہت، بے وفائیاں بھی بہت
محبتیں یوں تمہاری نباہیاں بھی بہت
وہی جو ہم نے سہی بے وفائی وہ سہتا
مِرے رقیب سے ہیں میری بھلائیاں بھی بہت
بہت سی حسرتیں بوڑھی ہوئی ہیں گھر بیٹھے
مگر کہ وقت پہ ہم نے بیاہیاں بھی بہت
ہر ایسے شخص کو تم عشق کی گلی میں مِلو
کرے جو عشق کی بڑھ بڑھ کے برائیاں بھی بہت
جہانِ آخرت میں اک خدا اور ایک سے لوگ
کئی خدا تھے زمیں پر، خدائیاں بھی بہت
بسائے شہرِ محبت، پھر اس کی گلیوں میں
تباہیاں وہیں میں نے مچائیاں بھی بہت
جہاں سماج نے مجھ سے ثبوت طلب کئے
وہیں پہ عشق نے مانگی صفائیاں بھی بہت
بہت سی خواہشیں چپ چاپ ساتھ چل دی تھی
مگر جو بچ گئی گھر سے بھگائیاں بھی بہت
مِرے رقیب کی کچھ تو شکایتیں تھی بجا
پر اپنے پاس سے اس نے لگائیاں بھی بہت
تمہاری یاد میں دل نے دھمال ڈالے جب
تو اس پہ دھڑکنیں تم نے نچائیاں بھی بہت

عامر امیر

No comments:

Post a Comment