میری قسمت کہ وہ اب ہیں مِرے غمخواروں میں
کل جو شامل تھے تِرے حاشیہ برداروں میں
زہر ایجاد کرو اور یہ پیہم سوچو
زندگی ہے کہ نہیں دوسرے سیاروں میں
کتنے آنسو ہیں کہ پلکوں پہ نہیں آ سکتے
اب تو دریا کی طبیعت بھی ہے گرداب پسند
اور وہ پہلی سی سکت بھی نہیں پتواروں میں
آپ کے قصر کی جانب کوئی دیکھے، توبہ
جرم ثابت ہو تو چن دیجئے دیواروں میں
آج تہذیب کے تیور بھی ہیں قاروں جیسے
دفن ہو جائے نہ کہیں اپنے ہیں انباروں میں
اپنی آواز کو بھی کان ترستے ہیں مِرے
جنسِ گفتار لیے پھِرتا ہوں بازاروں میں
تہمتیں حضرتِ انساں پہ نہ دھریئے انورؔ
دشمنی ہے کہ چلی آتی ہے تلواروں میں
انور مسعود
No comments:
Post a Comment