Thursday, 19 November 2015

کیا جانے ذوق و شوق کے بازار کیا ہوئے

کیا جانے ذوق و شوق کے بازار کیا ہوئے
یوسفؑ پکارتا ہے، خریدار کیا ہوئے
گستاخئ نگاہِ تمنا کدھر گئی
تعزیرِ درد کے وہ سزاوار کیا ہوئے
صبر آزما وہ شوقِ نظارہ کہاں گیا
آسودگانِ سایۂ دیوار کیا ہوئے
ہر سانس بُوئے بادہ، نہ ہر گام لغزشیں
جانے وہ محتسب کے گنہگار کیا ہوئے
دے تو کوئی تبسمِ دوراں کو پھر جواب
وہ میرے درد و غم کے طرفدار کیا ہوئے
تھا جن کے پاس زخم کا مرہم، کہاں گئے
جو دل کو جوڑتے تھے وہ معمار کیا ہوئے
ڈھونڈو تو کچھ ستارے ابھی ہوں گے عرش پر
دیکھو تو وہ حریفِ شبِ تار کیا ہوئے
جذبیؔ کہاں گئیں وہ تِری دل فروزیاں
ڈوبے ہوئے وہ سوز میں اشعار کیا ہوئے

معین احسن جذبی

No comments:

Post a Comment